اردو اور ترجمۂ قرآن - مولانا فرمان علی کے خیالات
۔۔۔اسی قرآن کی پہلی آیت: الحمد للہ رب العالمین ، جو ہر شخص کی زبان زد بھی ہے اور قریب قریب ہر شخص اپنے اپنے خیال کے موافق اس کے مطلب بھی سمجھتا ہے، اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں اس کا ترجمہ بشرطیکہ بامحاورہ بھی ہو اور پھر ترجمہ کی حد سے خارج بھی نہ ہونے پاۓ، تفسیر و شرح نہ ہو جاۓ ، ہوسکتا ہے، لا واللہ ہر گز نہیں۔ تم گبھراؤ نہیں۔ سنو! 'ال' کا ترجمہ کیا کروگے؛ بہت بلندپرواز کروگے تو کہوگے"کل" اب بتاؤ کیا فقط لفظ کلؔ سے الؔ کا پورا مطلب ادا ہوگیا؟ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃ۔اب اگے چلو۔حمدؔ کا ترجمہ کیا کرو گے؟ بہت سوچ ساچ کہ بعد کہو گے تعریفؔ؛ اس کہ سوا تمہاری زبان میں اس سے اچھا کویٔ لفظ بھی نہیں ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ تعریف بھی عربی ہی لفظ ہے جس کے معنی عربی زبان میں کچھ اور ہیں ، حمد اور تعریف میں کویٔ سروکار نہیں ہے۔ خیراردو زبان میں آپ نے ترجمہ کیا، بہتر؛ صحیح ہؤا۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ آپ کی اردو زبان میں مدح کے کیا معنی ہیں، پھر آپ بہت غوروخوض کے بعد فرمایۓگا وہی تعریفؔ۔ کیونکہ آپ کی زبان میں کویٔ اس سے اچھا لفظ ہی نہیں ہے۔ آپ کیجیۓ گا کیا۔ خیر جناب! اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے خیال میں اورمحض اردو دانوں کے لحاظ میں تو حمد و مدح میں کویٔ فرق نہ رہا۔ جو معنی حمد کے ہوۓ وہی مدح کے، حالانکہ عربی زبان میں حمد و مدح میں زمین آسمان کا فرق ہے، اسی طرح لام لفظ اللہ رب العالمین کی حالت ہے۔ اب فرمایۓ ایک آیت کے ترجمے کا یہ حال ہے ؏ قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا۔ سینکڑوں، ہزاروں کتابوں کا ترجمہ جسے ترجمہ کہیۓ کبھی ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سابق علماء ترجمہ کے نام سے کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔اب آپ کی سمجھ میں آیا بندہ پرور؟ بلکہ سچ یوں ہے کے ترجمہ کسی زبان کا ہو کسی دوسری زبان میں بہت دشوار ہے؛ پھر عربی زبان کا ترجمہ جس کے دامنِ الفاظ و معنی کی وسعت کی کویٔ حد ہی نہیں۔ اور پھر قرآن کا ترجمہ جس کے ہر ہر جملہ کے خدا جانے کتنے معنی ہوسکتے ہیں۔ وہ بھی اردو زبان میں، جس کے پاس گویاالفاظ ہی نہیں ہیں؛ ہیں بھی تو مانگے کے۔ اور وہ بھی اس قدر کم کہ توبہ بھلی۔آپ فرمایۓ گا کہ تم نے کیوں ترجمہ کیا؛ مَیں عرض کروں گا محض آپ حضرات کے اصرار اور خیال سے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ اصل قرآن سے تو آپ لوگوں کی دلچسپی ظاہر ہے شائد ترجمہ کہ وجہ سے کچھ توجہ ہو جاۓ ۔ اور کل نہیں تو کچھ احکامِ خدا ہی سمجھۓ؛۔۔۔
از مولانا فرمان علی در دیباچہ ترجمہ و تفسیرِ قرآن الحکیم
Comments
Post a Comment