Posts

Showing posts from February, 2014

عقلِ دانا کو مات کرتا ہے

عقلِ دانا کو مات کرتا ہے دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے کوششیں  کر، کہ چاہے ہوں کیسی دیکھ کہ، سعیٔ صفا کیا ہے جب بھی چاہا نگاہیں  پھیرلیں یہ محبت ہے؟ پھر جفا کیا ہے دیکھنا کیا، ہے اسکی سوچ محال چھوڑ یہ بات کہ خدا کیا ہے دل تو دل یاں روبرؤ تو عقل بھی گم، مجھے ہوا کیا ہے ہم سفر ہو سفر میں ہم خوش ہیں گرمی و سردی و ہوا کیا ہے حسن یہ اور یہ کوششیں بھرپور آپ کہیے کہ مدعا کیا ہے کھا چکے ہم غیر کی دعوت بہت دیکھیں یہ گھر میں اب پکا کیا ہے آپ کیوں کرتے ہیں یہ تعریفیں کچھ سفرؔ نے ابھی کہا کیا ہے

میں بھی رو سکتا ہوں

میں بھی رو سکتا ہوں میں بھی شاعر ہوں زندگی کی تڑپتی ہوئی حقیقتیں سسکتے ہوۓ لمحات میرے بھی کمزور سے دل پر گہرے نشانات چھوڑ جاتے ہیں اقوام کی، طبقات کی، افراد کی جنگیں میری بھی روح کو تڑپاتی ہیں تچھ پہ ہوتے ہوۓ پے درپہ یہ سنگین مظالم میں اپنے آپ پر محسوس کرتا ہوں میں بھی شاعر ہوں پر میرا اس طرح رونا، ترے کسی کام کا نہیں رونا اس وقت پہتر ہے، جب یہ سسکتے ہوۓ جزبات کو شعلہ بنادے میری تمہاری یا کسی اور کی ظلم کا ہاتھ جھٹکنے کی ہمت بڑھادے رونا اس وقت بہتر ہے جب نالۂ فریادِ فغاں ظالم کو رک جانے پر مجبور کردے مگر میرا یہ رونا ہمیں اور رلاۓ گا اور بس۔

دن کی روشنی میں ہم دیکھ نہیں سکتے بدر

میں عقل کی روشنی میں آنہیں سکتا نظر دن میں جو جاہیں بھی تو ہم دیکھ نہیں سکتے بدر

کہ صحرا میں دیر تک راستہ نہیں ہوتا

بہت مشکل ہے جرأتِ مجنوں کو دہرانا کہ صحرا میں دیر تک راستہ نہیں ہوتا ہے پسند اک بات ہم کو دشتِ ویراں کی کہ صحرا میں دیر تک راستہ نہیں ہوتا پیرویٔ رہنما میں رہنما کے ساتھ چل کہ صحرا میں دیر تک راستہ نہیں ہوتا

روزِ محشر میرے ان اشکوں کی قیمت دیکھنا

روزِ محشر میرے ان اشکوں کی قیمت دیکھنا روکتے ہیں جو مجھے ان کی حزیمت دیکھنا میرے اشکوں کی روانی میں ملا اتنا یقیں بر مقابل زہدِ شک تم ان کی قیمت دیکھنا دیکھنا ہو تو موسیٰ کے ہی عصیٰ کو دیکھنا پیرؤ فرعون کی جادوگری مت دیکھنا حافظِ اسلام کا اپنی جگہ نہ چھوڑنا بندۂ اسلام کا مالِ غنیمت دیکھنا مولا تیرے دربار میں عرض یہ اتنا ہی ہے میری عقیدت دیکھنا، میری کمی مت دیکھنا ہیوسٹن ؁۲۰۰۲ تصحیح ؁۲۰۲۰ 2022

یہ کیا تھا عہد ہم نے بھول جانا ہے اسے

یہ کیا تھا عہد ہم نے بھول جانا ہے اسے اب پریشاں بیٹھے ہیں اس سوچ میں "کیسا تھا وہ" تمثیل کیابتلائیں ہم آپ کو اس شخص کی اور کیا کہیں بس یہ کہ خود جیسا تھا وہ خرچ کرڈالا وطن میں سب نے اس غریب کو آدمی جیسے نہیں تھا جیسے بس پیسا تھا وہ ہیوسٹن ؁۲۰۰۲

زندگی تیرے لیئے کیا کیا کِیا ، کیا نہ کِیا

زندگی تیرے لیئے کیا کیا کِیا ، کیا نہ کِیا حسرتا تیرے لیئے کیا کیا کِیا ، کیا نہ کِیا تم سے تھا وعدہ ہمارا بھول جائیں گے تمہیں ہم نے کرنا تھا وفا وعدہ کِیا ، کیا نہ کِیا ہیوسٹن ۲۰۰۳

میرا شہر نہ ہو مرے بچوں کا شہر ہو

یہ کیا کہ ساری زندگی غربت میں بسر ہو میرا شہر نہ ہو مرے بچوں کا شہر ہو

کیوں کرتے ہیں آپ کنارا مجھ سے

دوری گریزِ نظر و اجتناب کیوں کیٰے آپ کنارا ہم سے قافلوں کا جو رہنما ٹہرے آگہی پائے وہ تارا ہم سے ان کے عارضِ کی کیا شفق دیکھی باغی ہوا دل ہمارا ہم سے اب یہ جہان بھی عسرت کا ہے کرنا ہے تمہیں گزارا ہم سے سوچا ہی کہ ہمارے ہوگئے تم بدلہ یہ تم نے اتارا ہم سے غافل یادِ زلفِ یار میں  ہوں شوق ہمیں ہے یہ پیارا ہم سے غافل یادِ زلفِ یار میں ہوں شوقؔ ہمیں ہے وہ پیارا ہم سے اصلاح اگست ۲۰۲۱ یہ دوری یہ گریزِ نظر یہ اجتناب کیوں کرتے ہیں آپ کنارا ہم سے وہ قافلوں کا جو راہنما ٹہرے پہچانا جائے گا وہ ستارا ہم سے جب بھی عارضِ محبوب کی شفق دیکھی باغی ہو گیا دل ہمارا ہم سے اب یہ جہان عالمِ عسرت ہے کرنا ہوگا تمہیں گزارا ہم سے ہمارے سوچتے ہی ہمارے ہوگئے ہو بدلہ کیا تم نے اتارا ہم سے غافل یادِ زلفِ یار میں ہوئے ہیں شوق ہمیں ہے یہ پیارا ہم سے غافل یادِ زلفِ یار میں ہوئے ہیں شوقؔ ہمیں ہے وہ پیارا ہم سے ۷ جولائی ۱۹۹۶؁

یار ذرا آہستہ

وقت کہتا ہے مجھ سے یار ذرا آہستہ اپنی امیدوں کے بل پر کس قدر بادِ تیز کی مانند دوڑتے ہو زمانے بھر کو چھوڑتے ہو وقت کہتا ہے مجھ سے ! میں کہ خوابوں کے بغیر حقیقتوں کا متلاشی یہ چاہتا ہوں کہ وقت سے کہوں یار ذرا آہستہ ۱ جولایٔ ۱۹۹۶

رشتہ ما بین ہر دو مگر پائیدار ہے

ہر چند کہ شمس خلافِ  قمر دکھائی دے رشتہ ما بین ہر دو مگر پائیدار ہے جاۓ اماں میں کیا بنی نوعِ انساں ہوں خوفزدہ ہتھیار سے یاں ہتھیار ہے اس دور میں تری زبوں حالی کا سبب تری قسمت نہیں، تیرا یہ کردار ہے پاسِ حق تمہیں مہنگا نہ پڑے شوقؔ ہر دور میں زبانِ حق سرِدار ہے ۱۳ مارچ ؁ ۱۹۹۷

مری خوبیوں کے طالب ہیں

مری خوبیوں کے طالب ہیں مجھے چاہتا کوئی نہیں ڈھانے والے بہت موجود پر سنبھالتا کوئی نہیں وہ قابلِ ستائش ہیں کیوں سراہتا کوئی نہیں سب کو بھیجا جائے ہے خود سدھارتا کوئی نہیں حق بات کرنے والوں کو اب سہارتا کوئی نہیں ۳۰/مارچ/۱۹۹۵