ہلی بات تو یہ کہ evolution نام ہی غلط ہے، چارلس ڈارون خود descent with modification کی اصطلاح کو ترجیح دیتا تھا کہ evolution کا مطلب growth ہوتا ہے اور ارتقائی معاملے کا growth سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اردو میں بھی اسکا ترجمہ "ارتقاء" ایک بالکل غلط تاثر دیتا ہے۔ (اور اس ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں تو اور باکل غلط اصطلاح کی کوشش کی گئی ہے "تکامل"). ارتقائی عمل کا ترقی (یا کاملیت) سے براہ راست کوئی تعلق ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی ایک خلیہ والے جاندار سے شروع ہوئی اور انسان جیسے ناطق حیوان تک آگئی تو اس کو ترقی کہنے مِیں کیا مضائقہ ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس کلیہ میں یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ دورِ حاضر کے ایک خلیہ کے جانداروں نے بھی اتنی ہی ارتقائی منازل طے کی ہیں کہ جتنی انسان اور دیگر تمام جانداروں نے کی ہیں، کیا ہم ایک امیبہ (Amoeba) کو بھی انسان جتنا ہی ترقی یافتہ گرداننے کے لیئے تیار ہیں؟ یا پھر مثلاً کرونا وائرس کیا انسان جتنی ارتقائی ترقی کرپایا ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو لوہے کہ چنے چبانے پر مجبور کررہا ہے۔ ارتقاء کی تو صرف دو بنیاد ہی...
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کیسے علم کی اپنی طینت میں عجز و انکسار ہے جبکہ عمومی مشاہدہ ہے کہ علم تکبر کا موجب بنتا ہے۔ اصل میں یہ تکبر ظرف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ورنہ بڑے لوگ جو بڑا علم رکھتے ہیں انکا ظرف ان کے علم سے بھی بڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے ظرف میں مزید گنجائش کا بھی علم رکھتے ہیں جو انکسار کی وجہ بنتی ہے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ مجھے میرے ظرف سے زیادہ علم نہ دے۔ پہلے میرے ظرف میں اضافہ کرے پھر علم دے۔
کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی کہ وہ غریب و امیر خادم و مخدوم حاکم و محکوم سب کو ایک نظر سے ایک نگاہ سے ایک ہی طرز سے گھیرے میں لے رہا تھا مگر وہ تو قدرتی آفت تھی یہ جو انسانوں نے خود اس کے مقابلے پر احکامات جاری کردیئے ہیں یہ امیر و غریب میں فرق کرتے ہیں اگر بظاہر نہیں کرتے توآثار میں ضرور کرتے ہیں کہ معاشی عدم استحکامی امیر کی دولت میں صرف کمی کرسکتی ہے بلکہ شاید صرف یہ کہ اسکی امارت کو بڑھنے سے روکتی ہے اور کچھ امراء نے تو اس وبا میں اور دولت جمع کرنے کے مواقع ڈھونڈ نکالے ہیں جو تھوڑے کم امیر ہیں انکی تو صرف سیر و سیاحت، کھانے اور کھلانے پر ایک قدغن لگی ہے یہ تو صرف غریب ہے کہ جس کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے کرونا سے بھی مرنا تھا،اسے اب بھوک سے بھی مر نا ہے وہ سفید پوش جو اپنا بھرم رکھنے کی خاطر اپنے گھروں کے حالات کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کی نگاہوں سے زبانوں سے محفوظ رکھے ہوئے تھے چادر کے مختلف کونوں کو باری باری کھینچ کر اپنی عزت کو ڈھانپنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ اب یا تو سر جھکائے اپنی سفید پوشی پر ہاتھ پھیلا کر داغ قبول کررہے ہیں یا وہ اب بس خا...
Comments
Post a Comment