تو یک طرفہ یہ ناسمجھی نہیں ہے

کیا کروں بات جو سوچی نہیں ہے

کیا کروں بات جو سمجھی نہیں ہے

صرف اس طرح کیجے پزیرائی مری 

کہ مری حیثیت پہ آپکا یقیں ہے 

مری سمجھ میں نہیں آتی یہ دنیا

تو یک طرفہ یہ ناسمجھی نہیں ہے

کیا خدا کو ڈھونڈتا میں کہاں ہوں

جب کہ ہر وقت وہ یہیں کہیں ہے

دستار کو  بلند نہ کیجیئے  اپنی 

اس سے بلند تر تو آپ کی جبیں ہے

جس طرح میں کسرت نہ کرسکوں ہوں

اسی طرح میری عبادت بھی نہیں ہے 

دفع کر اس شاعری کو سفر ؔ اپنی 

کہ یہ کچھ کسی کام کی نہیں ہے


Comments

  1. آپ کا درست کہنا ہے کہ قافیہ اور ردیف کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ غزل کا اصل اثر اور ہم آہنگی برقرار رہے۔ میں قافیہ اور ردیف کو درست کر کے، بحر ہزج مثمن سالم میں غزل کو دوبارہ ڈھال رہا ہوں۔

    نظرثانی شدہ غزل (قافیہ اور ردیف کے ساتھ):

    کیا کروں بات جو سوچی نہیں ہے
    کیا کروں بات جو سمجھی نہیں ہے

    صرف اتنی ہو قبول پذیرائی
    کہ مری حیثیت پہ آپ کا یقین ہے

    یہ جہاں میری سمجھ سے باہر ہے
    یوں ہی یک طرفہ ناسمجھی نہیں ہے

    کیا خدا کو ڈھونڈتا میں کہاں ہوں
    وہ تو ہر وقت میرے ساتھ ہی کہیں ہے

    دستار کو بلند نہ کیجیے آپ
    کہ بلندی تو آپ کی جبیں ہے

    جس طرح میں کسرت نہ کر سکوں ہوں
    اسی طرح میری عبادت نہیں ہے

    دفع کر اس شاعری کو، سفرؔ اپنی
    کہ یہ کچھ کسی کام کی نہیں ہے

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

ارتقاء

ظرف سے زیادہ علم

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی