ارتقاء

 ہلی بات تو یہ کہ evolution نام ہی غلط ہے، چارلس ڈارون خود descent with modification کی اصطلاح کو ترجیح دیتا تھا کہ evolution کا مطلب growth  ہوتا ہے اور ارتقائی معاملے کا growth سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔

اردو میں بھی اسکا ترجمہ "ارتقاء" ایک بالکل غلط تاثر دیتا ہے۔

(اور اس ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں تو اور باکل غلط اصطلاح کی کوشش کی گئی ہے "تکامل").

ارتقائی عمل کا ترقی (یا کاملیت) سے براہ راست کوئی تعلق ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی ایک خلیہ والے جاندار سے شروع ہوئی اور انسان جیسے ناطق حیوان تک آگئی تو اس کو ترقی کہنے مِیں کیا مضائقہ ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس کلیہ میں یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ دورِ حاضر کے ایک خلیہ کے جانداروں نے بھی اتنی ہی ارتقائی منازل طے کی ہیں کہ جتنی انسان اور دیگر تمام جانداروں نے کی ہیں، کیا ہم ایک امیبہ (Amoeba) کو بھی انسان جتنا ہی ترقی یافتہ گرداننے کے لیئے تیار ہیں؟ یا پھر مثلاً کرونا وائرس کیا انسان جتنی ارتقائی ترقی کرپایا ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو لوہے کہ چنے چبانے پر مجبور کررہا ہے۔

ارتقاء کی تو صرف دو بنیاد ہیں: تنوع اور معدومیت۔

 جیسا کہ ہم بالکل مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں جانداروں میں تنوع نظر آتا ہے اور نہ صرف تنوع نظر آتا ہے بالکہ اس تنوع میں بھی تغیر نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ ماحولیاتی بھی ہوسکتی ہے اور تولیدی بھی۔ ایک اور بات کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ جانداروں میں ماحول اور جغرافیہ کے حساب سے بتدریج تنوع نظر آتا ہے۔ یہ تنوع غیر قدرتی  بھی ہوسکتا ہے جیسے کے پالتو جانوروں ، گائے بیل، گھوڑوں اور کتوں وغیرہ کے معاملے میں انسانوں نے تولیدی انتخاب کرکے اپنی ضرورت کے مطابق مختلف نسلیں پروان چڑھا لی ہیں۔

ہمیں متعدد پتھراَئے ہوئی باقیات اور کچھ تاریخی حقیقتوں سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں متعدد جانوروں اور پودوں کی اقسام رہیں ہیں جو کہ اب معدوم ہوچکی ہیں، ڈائناسور کی باقیات بھی یہ بات واضح کرتی ہیں اور ڈوڈو تو تقریباً دورِِ حاضر کی ہی مثال ہے۔

بس تو یہ سمجھئے کہ ارتقاء اسی قدرتی تنوع، جو کہ ڈی این اے میں کسی تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے، کی عرصہ درازتک ہوتے رہنے اور موجود ماحول میں معدومیت اور عدم معدومیت کا نام ہے۔  یہ اتفاقی تبدیلی مزید نمو کی طرف بھی ہوتی ہے اور پس ماندگی کی طرف بھی اب یہ ماحول پر منحصر ہے کہ نمو کی حمایت کرے یا پس ماندگی کی۔ ماحول سے مراد آب و ہوا بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے جانداروں سے غذائی اور شکاریاتی چپقلش بھی۔ یہ اور بات کہ قدرت عمومی طور پر مرکب نمو کو پسماندگی کے مقابلے میں جیت دیتی ہے، مگر یہ ضروری نہیں، ہوسکتا ہے کہ ماحول کی تبدیلی خاص کر ماحول میں یک لخت تبدیلی ایک پیشرفتہ مخلوق کے مقابلے میں ایک ادنا مخلوق کو ترجیح دے دے۔ ڈائینا سور کے معاملے میں یہی گمان کیا جاسکتا ہے۔

یہ بنیادی حیئت کی تبدیلی کی بات ہورہی ہے جو کہ تولید سے اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی ہے (انسانی ثقافتی، تمدنی، اور ایجاداتی تبدیلیوں کوانسانی بنیادی حیئت کی تبدلی نہیں کہا جاسکتا) اور ایک بات یہ واضح رہے کہ یہ تبدیلی جاندار خود کو ماحول سے مطابق کرنے کے لیئے نہیں کرتے بلکہ یہ تبدیلیاں قدرتی طور پر ہوتی ہیں۔ زیادہ تریہ اتفاقی تبدیلیاں تباہ کن ہوتی ہیں جیسے کہ جانداروں میں پیدائشی عیب پائے جاتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ عیب والے جاندار اپنی زنگی کی دوڑ میں ناکام ہوجاتے ہیں اور تولید کیئے بغیر مر جاتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تبدیلی ایسی ہو کہ جو ماحول میں زیادہ سازگار ہو اور یہ تبدیلی اپنی حیثیت مستقل کرسکنے میں کامیاب ہوجائے۔ مثلاً فرض کیجِئے کہ کوئی بکری کا بچہ چار کے بجائے پانچ ٹانگوں کا پیدا ہوجائے اور یہ نقص والا بچہ اپنی زندگی اس طرح پوری کرسکے کہ اگلی نسل کی تولید میں اسکا ڈی این اے شامل ہوجائے تو یہ کافی ممکن ہے کہ اسکی اولاد میں سے ایسے بکری کے بچوں کی پیدائش زیادہ ہوجائے جن کی چار کے بجائے پانچ ٹانگیں ہوں، اگر ماحول سازگار رہے تو یہ پانچ ٹانگوں والے بکری اپنی نسلی پھیلاو کرتی رہے ، یہاں یہ بات باور رہے کہ گمان ہے کہ چار ٹانگوں والی بکریاں بھی اپنی نسل کو اگے پڑھانے کامیاب ہوسکتی ہونگی، اب یہ بات ماحول پر منحصر ہے کہ چار ٹانگوں والے بکریاں زیادہ پھلتی پھولتی ہیں یا پانچ ٹانگوں والی۔ فرض کریں کہ یہ بکریاں پہاڑوں پر رہتی ہیں اور پہاڑوں پر پاوں جمانے کے لیئے پانچ ٹانگیں زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہوں اور یہ بات اگر ہزاروں لاکھوں سال تک چلے تو ہوسکتا ہے کہ پانچ ٹانگوں والی بکریاں کافی تعداد میں پائے جانے لگیں، اسکے ساتھ یہ بھی فرض کریں کہ بکریوں کی غذا کسی وجہ سے میدانوں سے غائب ہونا شروع ہوجائے اور چار ٹانگوں والی بکریاں غذا کی کمی کی وجہ سے کم ہونا شروع ہوجائیں اور پہاڑوں پر پانچ ٹانگوں والی بکریاں اپنی نسلیں بچا سکیں اور چار ٹانگوں والی بکریاں معدوم ہوجائیں۔ تو بس ارتقائی طور پر بکریاں پانچ ٹانگوں کی پائے جانے لگیں گی۔ یہ تو تھی ایک بالکل فرضی مثال۔ اب بات کرتے ہیں زرافے کی۔ یہ بات بالکل نہیں ہے کہ افریقہ میں درختوں کے نچلے پتے ختم ہونے لگے تو زرافوں نے اپنی گردنیں لمبی کرنی شروع کردیں بلکہ اس کو اس طرح لیجیئے کہ درختوں کے پتوں کی اونچی نیچی موجودگی سے قطع نظر زرافوں کے قد میں ایک قدرتی تنوع ہوا، جو کہ قدرتاً ہوتا ہے، کچھ زرافے ذرا زیادہ لمبی گردن کے پیدا ہوئے اور کچھ ذرافے ذرا کم لمبی گردن کے۔ کم لمبی گردن والے زرافوں کے برخلاف زیادہ لمبی گردن والے زرافے درختوں کے پتوں کو زیادہ آسانی سے کھانے لگے اور یہ بات ان کی تولید میں اضافے کا سبب بن گئی۔  لمبی گردن والے زرافوں کے مقابلے میں ٹھگنی گردن والے زرافے کمزور پڑنے لگے اور اتنا تولیدی کامیاب نہیں ہوسکے۔ اب اگر اس بات کو ایک لمبے عرصہ تک محیط کردیا جائے تو تمام زرافوں کی گردنیں لمبی ملنی لگیں۔ بس اسی طرح زرافوں کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔ یہ بات واضح رہے کہ یہ کتھا قیاس آرائی پر مشتمل ہے، سائنس اسی قیاس آرائی  اور اسکو ثابت یا مسترد کرنے کا نام ہے، کہ ایک آدمی ایک کلیہ کا قیاس کرتا ہے، اور دوسرے لوگ اس کلیہ کو مختلف صورتوں پر تحمیل کرتے ہیں اگر یہ کلیہ ان کو بھی قدرتاً استعمال ہوتا نظر آئے اور انکے تجسس کو قابلِ قدر مطمئن کرے اور خاص طور پر انکی پیشن گوئیوں کو صحیح ثابت کرے تو اس کلیہ کو قانون تصور کرلیا جاتا ہے۔ جب تک کہ وہ کلیہ غلط یا کمزور ثابت نہ ہوجائے۔ 

اگر ہم اسی ایک تنوع اور معدومیت کے ارتقائی قانون کو دنیا کے دوسرے جانداروں مِیں فٹ کریں تو بغیر تبدیلی کہ وہاں بھی استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔

 بس اسی تنوع اور معدومیت کا نام ارتقاء ہے۔

 مختلف جانداروں کو انکے ماحول کے ساتھ مختلف سطح کی مطابقت ہوتی ہے، بس یہ کہ جو جاندارخود کو اپنے ماحول میں زندہ رہنے اور نسل کو بڑھانے میں ناکام رہتے ہیں وہ ایک عرصہ میں معدوم ہو جاتے ہیں، یہ ماحول سے غیر مطابقت ماحول کی دفعتاً تبدیلی کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور تبدیل شدہ جاندار کی ماحول سے پیدائشی زیادہ غیرمطابقت کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ اصل کلیہ بہترین کی بقا (survival of the fittest) نہیں بلکہ نااہل ترین کی موت (demise of the most unfit) ہے۔

آخر میں ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اس تمام معاملے میں آفاقی عمل دخل یا غیرعمل دخل دونوں کا کوئ سائنسی ثبوت نہیں ملتا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

کرونا تو بس ایک قدرتی آفت تھی

ظرف سے زیادہ علم